پچھلے صفحے پر جائیں
صفحہ احباب کو بھیجیں
زیست ہے یوسفِ کنعاں کی کہانی کی طرح حادثے سر سے گزرتے رہے پانی کی طرح دم لیا ڈال کے اک کِشورِثانی کی طرح دن پھرے اپنے زلیخا کی جوانی کی طرح روزِ ہجرت ہی سے جب سر پہ کفن رکھتے تھے ہم بھی کیا یاد کرینگے کہ وطن رکھتے تھے آئو آج اہلِ وطن ہی سے ملاقات کریں عہدِ رفتہ کے نشیمن کی کوئی بات کریں قصرِ بوسیدہ کے گنبد پہ مناجات کریں صبح سے شام کریں، شام سے پھر رات کریں اسی گلشن کی رگِ جاں میں نمو رکھتے ہیں خار بھی ہیں تو بہاروں کا لہو رکھتے ہیں
اسی گلشن کا میں اک بلبل آوارہ ہوں بیقراری مری فطرت ہے کہ میں پارہ ہوں بخدا اخترؔ ثابت نہیں ، سیارہ ہوں انقلابوں کو بھلاتا ہوں وہ گہوارہ ہوں عہدِ ماضی کی فضائوں کا اہم ساز ہوں میں کون سمجھے گا مجھے دور کی آواز ہوں میں ہائے جس دن سے لب گنگ و جمن کو چھوڑا مغربی ہوگئے، مشرق کے چلن کو چھوڑا صدق نے دل کو، لباسوں نے بدن کو چھوڑا رِم آہو ہے، غزالوں نے ختن کو چھوڑا لوگ کہتے ہیں بڑے صاحبِ ایمان ہیں ہم ہم کو اس میں بھی شبہ ہے کہ مسلمان ہیں ہم
یارب ہم دیر نشینوں کو مسلماں کردے علم و ایمان کی دولت کو فراواں کردے دیپ عصمت کے جلا، دل میں چراغاں کردے ذرے کو تاب عطا کر، مہہ تاباں کردے یہ گداگر بھی تو ہے، ہاشمی و مطلبی المدد سید مکی،مدنی العربی۔۔۔ ہم وطن چھوڑ آئے ہیں، محمدؐ کی قسم بت کدے توڑتے آئے، محمدؐ کی قسم شر سے منہ موڑتے آئے ہیں، محمدؐ کی قسم خم کے خم پھوڑتے آئے ہیں، محمدؐ کی قسم ہم نے طوفانوں سے لڑنے کو سفینہ چھوڑا حق پہ آنچ آگئی جس وقت، مدینہ چھوڑا
خوش ہوا پیاسا ذبح کر کے بہتر کو یزید زید و یحیٰ بھی ہوئے حق کی حمایت میں شہید ہوئے گمنام عدو، پھیل گئی نسلِ سعید روس و افریقہ، امریکہ و دنیائے بعید حکم دریا پہ سمندر پہ جہاں بانی ہے زید کی آل پہ پانی کی فراوانی ہے بےنشاں ہوگئے شاہان و سلاطینِ سلف ہوئے احرام فراعین تباہی کے ہدف کنجِ تاریک میں گم ہیں، نہ قرنا، ہے نہ دف ہاں مگر کرب و بلا، سامرہ و طوس و نجف ان کی ظلمت سے ملاقات نہیں ہوتی ہے یہ وہ خطے ہیں جہاں رات نہیں ہوتی ہے
ساری دنیا کے مسلمان، پر ستارِ حرم پوپ آف روم پہ ہے حضرتِ عیسیٰ کا کرم چین و جاپان پہ لہراتا ہے گوتم کا علم خطۂ ہند میں ہے رام کا سیتا کا دھرم کہدو قوموں سے ہماری نہ تمہاری دینا چند روحوں کی حکومت میں ہے ساری دنیا اور ان سب کا اشارہ ہے کہ معبود ہے ایک انس وجن، حور و ملک سب ہی کا مسجود ایک رنگ ہر دُر کا جدا ہے، دُرِ مقصود ہے ایک غیر محدود خلا، مرکز محدود ہے ایک جائو مسجد کی کلیسا کی کہ مندر کی طرف سارے دریائوں کا رخ ایک سمندر کی طرف
اس سمندر میں جو طوفاں ہو، قیامت آجائے نوع انسان تو کیا دہر کی شامت آجائے کوئی ہو زد میں نبوت کہ امامت آجائے شرط بس ایک ہے، وہ یہ کہ ضمانت آجائے ضامن ایسا کہ مشیت سے خود آگاہ تو ہو دستِ قدرت کو جو رو کے وہ ید اللہ تو ہو بس وہ ایک مردِ مجاہد ہے، حسین ابن علی نام تاریخوں میں ہے جس کا بہ الفاظِ جلی حق کے محبوب کا فرزند، ولی ابن علی خاک پا جس کی فرشتوں نے جبینوں پہ ملی کفر کو سر پہ کفن باندھ کے ٹوکا جس نے خون کی دھار سے طوفان کو روکا جس نے
وہی قائد ہے جو یہ درسِ عمل دیتا ہے ضبط وہ شے ہے کہ قوت کو کچل دیتا ہے ہار کو جیت کے سانچے میں بدل دیتا ہے جبر سے چھین کے مجبور کو پھل دیتا ہے ضبط غم پھول سمجھ لیتا جو انگاروں کو بیکسی موم بنادیتی ہے تلواروں کو کلمہ گوئی تو ہے فرض مسلماں کے لئے شرط تقویٰ کی مگر سخت ہے انساں کے لئے لاکھوں لے آتے ہیں ایماں، حذرِ ضاں کےلئے جان لاکھوں میں کوئی دیتا ہے ایماں کے لئے سونے چاندی سے تو قرآن یہاں لکھتے ہیں خون سے کلمۂ توحید کہاں لکھتے ہیں
کربلا حریتِ فکر کا پہلا منشور مر کے جینے کا دیا جس نے کہ قوموں کو شعور انقلابِ فرانس و امریکہ میں یہ نور تاجِ برطانیہ خم حضرت گاندھی کے حضور حق و انصاف کا چھٹرتا ہو کسی ملک میں ساز کان سنتے ہیں حسین ابن علی کی آواز اسی آواز نے انسان کا بدلاہے مزاج گرے مزدور کی ٹھوکر میں سلاطین کے تاج آج بچوں کی کہانی میں شہنشاہوں کے راج نہ روایات کہن اور نہ بوسیدہ سماج یہ وہ ماضی ہے کہ جو حال ہے، آئندہ ہے کربلا تین زمانوں کی نمائندہ ہے
کربلا ملک نہیں، قوم نہیں شہر نہیں کربلا قہر سے بنتی ہے مگر قہر نہیں کربلا فرقہ پرستی کی کوئی لہر نہیں علقمہ چشمۂ عرفاں ہے فقط نہر نہیں کربلا دہر کے ہر دین کا سرتاج ہوئی عرش والوں کو اسی فرش پہ معراج ہوئی کل مذاہب جہاں ملتے ہیں وہ منزل ہے یہی رگِ ایماں میں لہو جس کا ہے وہ دل ہے یہی لاکھ مذہب ہیں مگر مذہب کامل ہے یہی جس پہ طوفان ٹہرتے ہیں وہ ساحل ہے یہی جملہ اقوام کی وحدت کا شارہ ہے حسینؑ عظمتِ حضرتِ آدم کا منارہ ہے حسینؑ
امتیں ہیں، تو علامات اُمم بھی باقی دہر باقی ہے تو اس دہر کے غم بھی باقی کربلا آج بھی باقی ہے، ستم بھی باقی مگر عباسؑ بھی باقی ہیں، علم بھی باقی شمر باجوں پہ عمر سعد کے سر دھنتے ہیں لوگ پھر بھی علی اکبر کی اذاں سنتے ہیں ایک ہے ایک زمانے میں فقط ایک مثال راستہ بال سے باریک کہ چلنا بھی محال گامزن اس پہ ہیں سب پیرو جوان و اطفال حق کی راہوں میں نہ دن ہے، نہ مہینہ ہے نہ سال مسلم اور ان کے پسر؟ ہائے محرم تو نہ تھا وقت یہ بھی مگر عاشور سے کچھ کم تو نہ تھا
قافلے سے تھے الگ جان بچاسکتے تھے خود کو اور اپنے عزائم کو چھپا سکتے تھے وقت کے ساز سے یہ ساز ملا سکتے تھے کوہِ ایمان تھے جنبش میں کب آسکتے تھے کوفے میں معرکۂ کرب و بلا ہو جیسے یوں لڑے سامنے آنکھوں کے خدا ہو جیسے صف میں پیروں کے تھے، پیغام نبوت کے نقیب بو تمامہ سے جری، سعد، زہیر اور حبیب ایسی پیری کسے ملتی ہے،یہ پیری کے نصیب مثلِ پروانہ گرے شمع امامت کے قریب ضعفِ پیری سے بظاہر وہ کماں لگتے تھے ڈاب سے تیغ جو کھینچیں تو جواں لگتے تھے
ہونگے ماموم نہ ایسے نہ کوئی ایسا امام سرِ میدان کیا جھک کے فرشتوں نے سلام زعفر جن کے حواری بھی تھے موجود تمام اور تو اور شجاعت میں فرید ایسے غلام کہ عمر سعد سے تحریرِ غلامی لے لی حاکمِ وقت کی فوجوں سے سلامی لے لی ظہر کے وقت وہ اصحابِ حسینی کی نماز مسجد و مندر و گرجا کی عبادت کو ہے ناز رو بقبلہ تھے امام، آگے تھے دو قبلہ نواز سوئے محمود جو تیر آتے تھے کھاتے تھے ایاز جو عبادت کی سپر ہو اُسے کیا کہتے ہیں ہم نگہبانِ امامت کو خدا کہتے ہیں
مائیں بچوں کو سجاتی تھیں شہادت کے لئے لخت دل نذر تھے اسلام کی حُرمت کے لئے ماتم و گریہ تھا موقوف قیامت کے لئے لاشیں آئیں درِ خیمہ پہ جو رخصت کے لئے نوچ کر سینوں کو خود لختِ جگر پھینک دیئے اک نظر دیکھ کے میدان میں سر پھینک دیئے مائیں نو تھیں کہ جو لوہے کا جگر رکھتی تھیں اپنی آغوش میں وہ رشکِ قمر رکھتی تھیں آہ میں روزِ قیامت کا اثر رکھتی تھیں ہاں! مشیت کے تقاضوں پہ نظر رکھتی تھیں بڑے طوفانوں میں خیمے کا سفینہ آیا نو دفعہ مادرِ گیتی کو پسینہ آیا
اپنے بچوں کی وغا دیکھ رہی تھیں زینب جسم نیزوں سے چھدا دیکھ رہی تھیں زینب عون گھوڑے سے گرا، دیکھ رہی تھیں زینب سر محمد کا کٹا، دیکھ رہی تھیں زینب رہ گئیں جھوٹی اذانوں کی صدائیں باقی اب وہ فرزند ہی باقی نہ وہ مائیں باقی کیوں تعجب ہے تجھے معترضِ تنگ نظر اس سن و سال میںکیونکہ لڑے زینب کے پسر فوجیں ٹکرئیں درِ کوفہ سے پسپا ہو کر کلِ ایمان کے فرزند تھے، ہے تجھ کو خبر وہ جو چاہے، صِفتِ عقدہ کشائی دیدیے یہ بھی ممکن ہے کہ بندے کو خدائی دیدے
جذب تنکے کو بھی تلوار بنا سکتا ہے جوش کیسی کے پہاڑوں کو ہلا سکتا ہے عشق فولاد کو پنجے میں گلا سکتا ہے عزم طوفانوں کو چٹکی میں اڑا سکتا ہے کُلِ ایمان کی ہیئت ہی جدا ہوتی ہے روح بالیدہ اگار ہو، تو خدا ہوتی ہے تیغ جب کھینچی، تو ہر صف میں صفایا دیکھا اشقیا گتھ گئے اپنا نہ پرایا دیکھا صبر پر آئے تو تلوار نے سایا دیکھا غیب سے جو بھی مشیت نے دکھایا دیکھا یہ ظفر کی جو دعا کرتے ظفر ہو جاتی فوج سو لاکھ بھی ہوتی تو صفر ہوجاتی
لاکھوں ارزاق ہیں، زمانے میں اور ارزاق کے پسر ہاں مبارزطلبی کرتے ہیں، وہ بائی شر امت احمدِ مرسل کو تباہی کا ہے ڈر کوئی قاسم سرِ میدان دکھائے جوہر کون ساحل سفینے کو سلامت لائے اُم فروہ ترا پہ فرزند! کہاں سے لائے کون قاسم، حق و باطل کو جو تقسیم کرے سب برات آئے تو دولہا کی وہ تعظیم کرے وہ عروسی جسے حق عرش پہ تسلیم کرے مہر میں اسکو عطا کوثر و تسنیم کرے مہندی ایسی تھی کہ منہ خون سے سب نے دھوئے سوئی امت کو جگایا، تو براتی سوئے
ظاہرا اکبر غازی کے سناں دل میں لگی در حقیقت وہ سناں سینۂ قاتل میں لگی شعلہ اٹھتا تھا جہاں آگ اسی منزل میں لگی حشر تک بجھ نہ سکے گی، سرِ باطل میں لگی کربلا ہی کے موذن سے جہاں باقی ہے دہر میں کچھ بھی نہ ہو رسمِ اذاں باقی ہے چپ ہے تاریخ، نہ دیکھی نہ سنی یہ پیکار ادھر عباس اکیلے تھے ادھر چار ہزار سر اڑاتے ہوئے جب نہر میں ڈالارہوار گھاٹ پر لاشوں کے تھے ڈھیر بھگوڑوں میں پکار منوں وزنی تھے جویل، ہوگئے ماشہ دیکھو آگ پانی میں لگی ہے، یہ تماشہ دیکھو
پانی پی سکتے تھے عباس، مگر صبر کیا پانی چلو میں لیا، آہ بھری، پھینک دیا وہ تو انسان تھے، رہوار نے مانی نہ پیا مر کے یوں جیتے ہیں، جس طرح کے عباس جیا جتنی قوموں میں بھی حق گئی کا دم ہوتا ہے اُن میں عباسِ علی ہی کا علم ہوتا ہے دل کو جو فتح کرے، فاتح اعظم ہے وہی سمت منزل کی جو دئے، قبلۂ عالم ہے وہی تا ابد سر پہ جو اڑتا رہے، پرچم ہے وہی روح ہو جس کی امر، روحِ مجسم ہے وہی لاش عباس کی مقتل سے اٹھائی نہ گئی حشر تک شیر کے قبضے سے ترائی نہ گئی
نہیں تاریخ میں عالم کی کوئی ایسی نظیر سرِ میدانِ جہاد آیا ہو ششماہہ صغیر بے زباں، خستہ جگر، پیاس سے بے جاں بے شیر تھا گلستانِ شہادت کا مگر عطرِ عطیر وار خاموشی کا، تلوار سے کاری نکلا کم سنی میں بھی ، وہ دو لاکھ پہ بھاری نکلا منقلب ہاتھوں پہ یہ بے شیر لہوتا بہ رکاب خونِ اصغر سے کیا ریش مبارک کو خضاب فکر لاحق تھی کہ کیا ہوگا جو پوچھیں گی رباب چلے دو گام تو دو لمحہ ٹہرتے تھے جناب ننھا لاشۂ، عجب انداز تھا، جب لائے حسین چھ دفعہ جا کے درِ خیمہ پہ لوٹ آئے حسین
ثبت ہے صفحۂ ہستی پہ دوام شبیر ذکرِ تخلیق کا عنوان ہے نامِ شبیر زینتِ قصۂ آدم ہے مقامِ شبیر باعث، صبح ازل بن گئی، شامِ شبیر نوحہ گر چیختا پھرتا ہے، کہاں ہیں شبیر بڑھ کے ہر قوم یہ کہتی ہے یہاں ہیں شبیر جو تھے بس ماندہ و مجبور انہیں قدرت بخشی پست ذرٗات کو سورج کی حرارت بخشی قہر دیکھا کیا مقہور کو عزت بخشی کیا طاقت کو خجل، ضعف کو طاقت بخشی سرِ نمرود پئے ردِ بلا کاٹ دیا خون کی دھار سے خنجر کا گلا کاٹ دیا چھ دفعہ جا کے درِ خیمہ پہ لوٹ آئے حسین